فرمان باری تعالیٰ ہے ہم نے ہر زندہ چیز پانی سے بنائی کیا وہ اس کا یقین نہیں کرتے (سورۂ مومنون)
انسانی جسم عناصر خمسہ سے مرتب کیا گیا ہے یعنی پانی‘ آگ‘ ہوا اور مٹی۔ ان کا مزاج الگ الگ ہے۔ پانی کا مزاج سرد تر ہے‘ آگ گرم خشک اور ہوا گرم تر ہے۔ پانی عناصر خمسہ میں سے ایک ہے۔ پانی کے بغیر ہمارے جسم کی نشوونما نہیں ہوسکتی اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔ جسم انسانی کے اندر پانی پچاسی فیصد ہوتا ہے جسم میںپانی کی ایک نلی ہے جس کے چاروں طرف چھوٹے بڑے ڈرن پائپ کی طرح پانی والی اشیاء کی آمدورفت کیلئے نالیاں موجود ہیں۔ جسم کا ہر حصہ پانی کے ذریعہ دھویا جاتا ہے۔ مانجھا جاتا ہے اور قدرتی طور پر صاف ہوتا رہتا ہے۔ کافی مقدار میں پانی اگر جسم میں موجود نہ ہو تو تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ جسم کی حفاظت کیلئے اسی طرح جسم کو خوراک اور پانی پہنچایا جاتا ہے جس طرح ریل گاڑی کا انجن چلانے کیلئے کوئلہ اور پانی دیا جاتا ہے جب کبھی جسم میں زیادہ گرمی محسوس ہوتی ہے تو پیاس لگتی ہے اور پانی سے پیاس بجھائی جاتی ہے۔ رات کو سونے سے قبل اور صبح اٹھنے کے بعد اجابت ضروریہ سے فارغ ہوکر ایک ایک گلاس پانی پینے سے جسم کو بہت تقویت ملتی ہے کئی بیماریوں سے چھٹکارا ملتا ہے۔ یہ ایک ٹانک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دن کو بھی ضرورت کے وقت یعنی پیاس لگنے کے وقت پانی پینا چاہیے۔ سنت رسول ﷺ کے مطابق پانی بیٹھ کر تین سانسوں میں پینا چاہیے اس طرح کرنے سے پانی قدرتی طور پر جتنا جسم کی ضرورت ہوتی ہے اتنا جسم کے اندر پہنچ جاتا ہے۔ پورا گلاس ایک دم انڈیل دینے سے آنتوں کی بیماری اور سانس کی بیماریاں پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ مشائخ نے کھانے کے بعد پانی پینے سے منع فرمایا ہے اور اس کو بیماری بتایا ہے۔ طب جدید کے ماہرین نے بھی اس کو صحت کیلئے تباہ کن بتایا ہے۔ موجودہ دور میں ہر غذائی چیز زہریلی ہے زمین میں بوٹی تلف زہریں استعمال ہورہی ہیں بیچ بونے کے بعد کھاد اور کیڑے مار دوائیں یعنی زہریں ڈالی جاتی ہیں اسی لیے ڈاکٹروں اور حکماء نے کھانے سے آدھ گھنٹہ قبل اور کھانے کے آدھ گھنٹہ بعد پانی پینے کا مشورہ دیا ہے۔ رات کو جو پانی ہم پی کر سوجاتے ہیں وہ پانی جسم میں جذب یا خشک ہوجاتا ہے۔ اس کا تھوڑا سا حصہ مثانہ میں جمع رہتا ہے۔ علی الصبح جو پانی ہم پیتے ہیں اس سے ہمارا جسم تروتازہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات جی متلاتا ہے‘ قے ہوجاتی ہے‘ پیٹ بوجھل محسوس ہوتا ہے‘ سخت قبض ہوجاتی ہے۔ ناشتہ سے قبل تین چار بار پانی پینے سے ان علامات سے مکمل چھٹکارا مل جاتا ہے۔
پانی کا گھڑا ایسی جگہ رکھنا چاہیے‘ جہاں ہوا اور روشنی ہو۔ پانی بند اور اندھیری جگہ رکھنا‘ پلاسٹک کی بوتلوں اور کولر وغیرہ میں رکھنا صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔ کیونکہ ان چیزوں میں ہوا اور روشنی کا دخل نہیں ہوتا۔ پانی کو مؤثر کرنے کیلئے دو گلاس میں تھوڑا تھوڑا پانی ڈالیں اور شربت کی طرح ایک گلاس کو دوسرے گلاس میں الٹ پلٹ کرتے رہیں اس طرح ہوا اور روشنی سے پانی متاثر ہوجاتا ہے اور بہترین فائدہ مند بن جاتا ہے۔
غسل ہماری زندگی کے قیام کیلئے ضروری ہے۔ غسل کرنے سے جسم ٹھنڈا اور تروتازہ ہوجاتا ہے۔ خون رگوں میں دوڑنے لگ جاتا ہے۔ سر اور دماغ میں سکون پہنچتا ہے۔ جلد پر سے پسینہ وغیرہ و دیگر آلودگی صاف ہوجاتی ہے۔ بھوک کھل جاتی ہے‘جسمانی پاکی کے ساتھ روحانی پاکی حاصل ہوتی ہے اور سکون ملتا ہے۔ جس دن غسل نہ کیا جائے تو سر میں گرانی محسوس ہوتی ہے۔ کچھ حرارت بھی محسوس ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ جب میرے گھر تشریف لائے تو انہیں سخت شدید بخار تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا کرو سات مشکیں پانی کی لاؤ جن کے منہ نہ کھولے گئے ہوں وہ سب مجھ پر بہاؤ شاید میرا بخار کم ہوجائے۔ ہم نے حضور ﷺ کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ایک ٹب میں بٹھا دیا اور اوپر سے مشکوں کا پانی ڈالنا شروع کردیا یہاں تک کہ آپ ﷺ اشارہ فرمانے لگے بس کرو بس… پھر آپ ﷺ باہر نکلے اور تندرست ہوگئے۔ (بخاری)حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بخار دوزخ کی بھاپ ہے تم اس کو پانی سے بجھاؤ۔
جسم انسانی میں گرمی یا صفرا کو اعتدال پر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی کے ذریعہ ہمارے جسم کی نشوونما ہوتی ہے جب کسی انسان کے جسم میں گرمی (حرارت) معمول سے زیادہ ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی طیبعت خراب ہے جب گرمی یا حرارت اندر سے بڑھ جاتی ہے اور جلد پر اس کا کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا تو اکثر کہا جاتا ہے کہ اندرونی بخار ہے۔
حضور ﷺ نے کھانا پیٹ بھر کر کھانے سے منع فرمایا ہے۔ بھوک سے زیادہ کھانے سے جسم میں حرارت یا گرمی پیدا ہوکراندر ہی اندر جسم کو جلا کر رکھ دیتی ہے اگر اس کا مناسب علاج بروقت نہ کیا جائے تو ہمارے جسم کو ختم بھی کرسکتی ہے۔ اکثر ہم نے سنا ہے کہ کمرے میں گیس کی زیادتی سے اموات واقع ہوتی ہیں۔ گوداموں میں آتشزدگی ہوئی ہے‘ جسم میں گیس کے جمع ہونے سے خوفناک بیماریاں جنم لیتی ہیں جب حرارت یا گرمی سے آنتوں کے اندر فضلہ جلنے لگتا ہے تو وہ خشک سدے کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس سے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے۔ معدے سے جب بخارات مثانے کی طرف رخ کرتے ہیں تو پیشاب بند ہوجاتا ہے جب پھیپھڑوں کی طرف رخ کرتے ہیں تو نمونیا/ڈبل نمونیا ہوجاتا ہے۔ جب دماغ اور پھیپھڑے اس گیس سے متاثر ہوتے ہیں تو ٹائیفائیڈ اور نمونیا ہوجاتا ہے۔ اگر گلے کی طرف رخ ہو اور گلا متاثر ہو تو خناق جیسی بیماری ظاہرہوتی ہے اسی طرح مختلف بیماریاںجنم لیتی ہیں۔
گرمی کا علاج ہمیشہ سردی سے کیا جائے اور سردی کا علاج گرمی سے اور خشک امراض کا علاج تری سے کیا جائے۔ فرض کریں کہ ہمارے جسم میں پھوڑا نکل آیا ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ اس جگہ آگ (گرمی) جمع ہوگئی ہے اب ہمیں بجائے ڈاکٹروں اور حکیموں کی ادویات کھانے کے آگ کی دشمن مٹی اور پانی سے علاج کرنا چاہیے۔ یعنی مٹی میں پانی ڈال کر گیلی مٹی کا لیپ کردیں ہوا تیسرا عنصر خودبخود شامل ہوجاتا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ تجربہ کرکے دیکھیں سوفیصد مجرب علاج ہے۔ گیلی مٹی لگا کر جب خشک ہونے کو ہو تو روئی وغیرہ سے پانی لگا کر تر کردیا کریں۔ یقین کریں بواسیری مسے بھی اسی طریقہ علاج سے بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ رات کو گیلی مٹی کی ٹکیہ بنا کر کس کر روزانہ باندھ دیں تین چار دن میں مسے خودبخود ختم ہوجائیںگے۔ سخت سے سخت بخار حتیٰ کہ نمونیا کے بخار کیلئے گیلی مٹی کا لیپ مستقل کرنے سے شفاء کا ذریعہ بنتا ہے۔ قدرتی طور پر گرم امراض کا علاج سرد پانی سرد تاثیر رکھنے والے پھل‘ دہی اور تازہ پھلوں کا رس کا استعمال نہایت مفید ثابت ہوا ہے۔ بیماری کے دوران گرم اشیاء سے پرہیز لازم ہے جب جسم نارمل حالت میں آجائے تو جو چیزیں پسند ہوں گرم ہوں یا تر ہوں خوب کھائیں مگر اعتدال ضروری ہے۔ ہمیں قدرت کے دئیے ہوئے اصول کے مطابق چاہے دینی ہوں یا دنیاوی انکے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں